غذا اور ہاضمہ کی خرابی
غذا اور ہاضمہ کی خرابی میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ نظام ہضم میں خرابی کےمریضوں کی کوئی کمی نہیں تقریباً ہر گھر میں ایسے مریض موجود ہوتے ہیں، لیکن انکی بڑی تعداد یا تو نفسیاتی اور ذہنی طور خود کو مریض سمجھ رہی ہوتی ہے یا معلومات میں کمی اسکا باعث بنتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ایک اچھے ہومیوپیتھ ڈاکٹر کو وہ تمام امور معلوم ہونا چاہیے جو واقعی ان عوارض کا سبب بنتے ہیں۔
نظام ہاضمہ کے ضمن میں جو شکایت کلیدی اہمیت کی حامل ہے وہ نفخ شکم یا گیس کی شکایت ہے۔ دور حاضر میں کون ہے جسے اس بلا نے پریشان نہ کر رکھا ہو ؟ کھانے کے بعد متواتر ڈکاریں آنے یا پیٹ میں گیس ہو جانے کا شکوہ اکثر لوگ کرتے نظر آتے ہیں یہاں تک کہ ایسے مریض بھی دیکھنے میں آتے ہیں جنکا خودساختہ دعو ٰ ی یہ ہوتاہےکہ گیس ان کے سر، گردن، ایڑی یا جسم کے کسی اور حصے میں پھنس گئی ہے اور انہیں تکلیف پہنچا رہی ہے ۔ اسی پر بس نہیں، اگر ان کے جسم کے ان مقامات کو آہستہ آہستہ دبایا جائے تو ایسے لوگوں کو بڑی بڑی ڈکاریں آتی ہیں اور وہ سکون محسوس کرتے ہیں۔ انکا خیال یہ ہوتا ہے کہ جسم کے ان حصوں کو دبانے کے نتیجے میں گیس ،ڈکار یا کسی اور شکل میں خارج ہو گئی ہے حالانکہ یہ محض انکی غلط فہمی ہوتی ہے ۔کیونکہ ان مقامات تک گیس کے پہنچنے کے لئے کوئی راستہ جسم میں موجود نہیں ہے۔
کھانا کھانے کے بعد جب ہاضمہ کا عمل شروع ہوتا ہے تو گیس بھی بنتی ہے یہ گیس اگر معدے میں بنے تو ڈکار کی شکل میں خارج ہوتی ہے او ر اگر آنتوں میں بنے تو ” باد شکم کا جھونکا”بن کرریاح کی صورت میں باہر نکل جاتی ہے۔لیکن اس گیس کی مقداراتنی کم ہوتی ہےکہ عام طورپراسکااحساس بھی نہیں ہوتا لیکن کچھ لوگوں کو کھانا کھاتےہی ڈکاریں آنا شروع ہو جاتی ہیں جبکہ انہوں نے کھانا بھی نوعیت اور مقدار کے لحاظ سے ٹھیک طرح سے کھایا ہوتا ہے اور انکا نظا م ہاضمہ بھی درست کام کر رہا ہوتا ہے۔ حقیقت میں ڈکاروں کی شکایت، غذا کے کھانے اور اسے نگلنے کے غلط انداز کے باعث بھی پیدا ہوتی ہے۔کچھ لوگ کھانا بہت جلدی میں کھاتے ہیں ،اسی عجلت کے مارے وہ نوالوں کے ساتھ ہوا کی خاصی مقدار بھی نگل لیتے ہیں ۔اکثر لوگ کھانے کے دوران بہت باتیں کرنے کے عادی ہوتے ہیں بلکہ اب تو”فوڈ فار تھاٹ “کو فیشن سمجھا جاتا ہے ۔حالانکہ طبی نقطہ نظر سے دوران غذا ٹیلیویژن دیکھنا،موبائیل میں مصروف رہنا ،کھاتے ہوئے کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ چلاناذہنی ضرر کا باعث بن سکتا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے تو باقاعدہ طور پر ان تینوں اشیاء کا کھانے کے دوران کثرت سے استعمال ”دماغی اسٹروک “کا ایک اہم سبب قرار دیا ہے۔
جب معدہ غذا کو ہضم کرنے کے لئے حرکت میں آتا ہے اور غذا ادھر ادھر سرکتی ہے تو معدے میں موجود ہوا کوباہر نکلنے کا راستہ مل جاتا ہے چنانچہ یہ ہوا ڈکاروں کی شکل میں خارج ہوتی رہتی ہے ۔یہی صورت اس وقت بھی رونما ہوتی ہے جب پینے والی چیزوں کو بہت چوس چوس کر پیا جائے۔ ہوا کے اخراج سے چونکہ معدے میں تناؤ کم ہوتا ہے اس لئے انسان تسکین محسوس کرتا ہے۔ بعض لوگوں کو تو ڈکار لینے کی اتنی مشق ہو جاتی ہے کہ وہ مخصوص طریقے پر معدے کو حرکت دے کر جب چاہتےہیں ڈکار لینےکا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ ڈکاریں لینےسے وہ نفسیاتی طور پر سکون محسوس کرتے ہیں ۔
جب کبھی ہاضمہ میں خرابی محسوس ہوتی ہے یا پیٹ بوجھل ہونے لگتا ہے تو ہم جھٹ ہاضمہ کی کوئی دوا استعمال کر لیتے ہیں بالخصوص ان میں سوڈیم بائی کاربونیٹ کی گولیاں یا کولڈرنکس شامل ہوتی ہیں۔ معدے میں ہاضم رطوبات موجود ہوتی ہیں جنکی خاصیت تیزابی ہوتی ہے۔ جب سوڈیم بائی کاربونیٹ کی ملاقات معدے کی تیزابی رطوبتوں سے ہوتی ہے تو کیمیائی عمل کے نتیجے میں کاربونک ایسڈ گیس بنتی ہے جو ڈکار یا ریاح کی صورت میں خارج ہونے کے بعد لوگ خود کا بہت ہلکا اور پرسکون تصور کرنے لگتے ہیں۔
لیکن وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ ہاضمے کی جس دوا نے گیس انکے جسم سے خارج کی ہے وہ گیس بنی ہی اس عمل کی وجہ سے تھی۔
ہاضمہ کی خرابی کی ضمن میں تیزابیت یا سینے کی جلن ایک نمایاں مقام رکھتی ہے۔ یہ جلن چونکہ سینے میں محسوس ہوتی ہے اس لئے اکثر لوگ اسے دل کی تکلیف سمجھ بیٹھتے ہیںاور شدید خوف کا شکار ہوجاتےہیں حالانکہ تیزابیت یا سینے کی جلن کا دل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ،یہ تکلیف عام طور پر معدے کی ہاضم رطوبات کے زیادہ مقدار میں بننے یا تیز مرچ مصالحے والی غذ ائیں کھانےکے بعد پیدا ہوتی ہے۔ دریں اثناء دا فع دردگولیاںبالخصوص ایسپیرین کا کثرت سےاستعما ل معدے کی جھلی کوزخمی کردیتاہےاوروہ السر کی صورت اختیار کرجاتا ہے۔ اسکے علاوہ بنیادی طور پر کھانا کھانے کی صورت میں کچھ لوگوں کو جلن یا تیزابیت کی شکایت ہوتی ہے جسکی بنیادی وجہ ایک مخصوص قسم کا بیکٹیریا جسے ایچ پائلور ی کہتے ہیں، معدے میں بسیرا کرتا ہےاور بنیادی طور پر معدے کا السر پیدا کرنے میں فعال کردار ادا کرتا ہے۔
کھانا کھانے کی صورت میں کچھ لوگوں کو مختلف اشیاء سے الرجی ہوجاتی ہے۔ کسی کو انڈے سے الرجی ہوتی ہے، کسی کو دودھ پینے سے الرجی ہوتی ہے اور کوئی ویٹ(گندم)الرجی کا شکار ہوتا ہے۔ کسی کے خیال میں اسے مچھلی راس نہیں آتی ۔ یہ ایک حقیقت ہے کے بعض لوگ کسی خاص غذا سے الرجک ہوجاتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے ایسے لوگ بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں جنکے ذہن میں نا پسندیدگی کی بناء پر حادثاتی طور پر یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ فلاں غذا انہیں نقصان پہنچائے گی اور وہ اس غذا کو دانستہ یا نادانستہ استعمال کر لیں تو مفروضوں کی بنیاد پر پیدا شدہ تکلیف سے پریشان ہو جاتے ہیں۔
معدے کی ساخت اور اسکے کام دونوں حیرت انگیز ہیں دنیا بھر میں ماہرین انسانی جسم کے اس عضو پر تحقیق کر رہے ہیں جسکے نتیجے میں چند حقائق مندرجہ ذیل ہیں
معدہ بڑے مضبوط عضلات سے ملکر بنا ہے ،اس لئے کوئی بھی شے اسے آسانی سے نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ معدے میں بننے والے تیزاب اس قدر تیز اثر ہوتے ہیں کہ اگرانہیں ہتھیلی پر تھوڑی دیر کے لئے رکھا جائے تو ممکن ہے کے آبلے ڈال دے ،لیکن قدرت نے معدے کی دیواروں کو مخصوص ساخت عطا کی ہے۔ اور انکی حفاظت کے لئے ایک خاص قسم کے استر کرنے والی رطوبتیں پیدا کی ہیں۔
دیگر عوامل میں کھانے کے وقت انسان کی جذباتی کیفیت اسکے ہاضمہ کے فعل پراثرانداز ہوتی ہیں ۔ ڈاکٹر کو چاہئے کہ اگر مریض کا معدہ صحیح طور پر کام کرتا رہے تو اسےمندرجہ ذیل باتوں پر عمل پیرا ہونے کی رہنمائی کرے
مریض اس وقت کھانا نہ کھائے جب وہ بہت تھکاہوا ہو یا کسی گرم جگہ سے آرہا ہو بلکہ تھوڑی دیر آرام کا مشورہ ضروری ہے۔
اسی طرح کھانےکےفورًابعدبھاگدوڑاورسخت محنت ومشقت کاکام نہ کرےبلکہ تقریباً پندرہ منٹ آرام کرے خصوصاً دوپہر کے کھانے (ظہرانہ) کے بعد آرام کرنا ضروری ہوتا ہے جسے قیلولہ کہا جاتا ہے لیکن قیلولہ کا مطلب دس سے پندرہ منٹ لیٹ کر کروٹیں بدلنا ہے نا کہ سونا ،جیسا کہ عام طور پر لوگوں کا معمول ہے ۔واضح رہے کے دن میں سونا ہاضمہ اور صحت دونوں کے لئے مضر ہے۔
خاموشی سے کھانا کھایا جائے ۔کھانے کے دوران طویل بحث و مباحثہ اور ناپسندیدہ باتوں سے پرہیز کیا جائے زور زور سے قہقہے نہ لگائےجائیں۔یہ تمام باتیںہاضمےکےعمل کو متاثر کر دیتی ہیں۔کھانے کے شروع میں تسمیہ اور آخر میں تحمید پڑھنے سے کھانے میں برکت ہوتی ہے۔
کھانا کھاتے وقت اپنے آپ کو ذہنی طور پر، پرسکون رکھناچاہئے بالخصوص کاروباری مسائل، دفتری الجھنوں اور ذاتی پریشانیوں کو اس وقت ذہن سے جھٹک دینا چاہئے ۔
کھانے کے ذائقے، رنگت، خوشبو اور فوائد پر غور کیا جائے تو زیادہ اچھا ہے جیسا کہ محاورہ ہے کہ،” آنکھ پسند توآنت پسند“۔
غذا کو اچھی طرح چبا کر کھایا جائے تاکہ وہ خوب باریک ہو جائے اور منہ میں موجود ہاضمے کی رطوبتیں اس غذا پر صحیح طرح سے عمل کر سکیں اس طرح معدے پر کام کا بوجھ کم ہوجاتا ہے کیونکہ معدےکے دانت نہیں ہوتے۔
ایسی غذائیں منتخب کریںجوسادگی کےساتھ پکائی گئی ہوںاورآسانی سےہضم ہونےوالی ہوں۔پرتکلف طورپرپکائی گئی مرغن اشیاءبالخصوص فاسٹ فوڈ ، بیکری کی بنی مصنوعات وغیرہ کا کثرت سے استعمال ، دور حاضر میں گھر سے باہر کھانے کا رجحا ن صحت اور ہاضمے کو تباہ کرنے میں قلیدی کردار کا حامل ہے۔ بقول اکبر الہ آبادی،
؎ بنے اس قدر مہذب کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا
کٹی عمر ہوٹلوں میں مرے ہسپتال جا کر
غذا چھان کر کھانے سے اسکی افادیت کم ہو جاتی ہے اسی طریقے سے دھلی ہوئی دالیں جن پر مصنوعی رنگ ہوتا ہے معدے کے لئے نقصان دہ ہیں۔ غذا کا حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق تیار کرنا بھی انسانی صحت کے لئے ایک نعمت سے کم نہیں ،جس کے لئے ماں ، بیوی، بہن، بیٹی کا کردار انتہائی افادیت کا حامل ہے ۔
خوب پیٹ بھر کر کھانے کی اجازت کسی طرح نہیں دی جا سکتی ، زندہ رہنے کے لئے کھایا جا ئے نہ کہ کھانےکے لئے ۔ غذا اتنی کم کھائی جائے بلکہ رات کے کھانے میں تو بھوک سے چند لقمے کم ہی کھانا چاہئےجیسا کہ قول ہے کہ”صبح بادشاہوں کی طرح کھانا ، دوپہر کو وزیروں کی طرح کھانا اور رات کو فقیروں کی طرح کھانا ” ہی مفید ثابت ہوتا ہے۔
غذا متوازن اور ملی جلی کھائی جائے ایک ہی شے متواتردنوں تک کھانے یا صرف پسندیدہ اشیاء کھانے سے نظام ہاضمہ میں بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے۔
غذائی معاملات میں جو چیز خدا نے جہاں پیدا کی ہے وہاں کے لئے زیادہ مفید ہے بالخصوص پھل جیسا کہ پپیتا، ناریل، امرود، شریفہ، جنگل جلیبی، املی ، گوندھنی اور جامن کا رغبت سے استعمال کراچی کے مکینوں کے لئے مفید ہے۔
غذا اور غذائیت کے علم سے ناواقفیت میں انسان کی اپنی نفسیات بھی اہم کردار ادا کرتی ہے اور انسان بعض اوقات نفسیاتی طور پر اسکے اثر میں آجاتا ہے مثلاً اگر کبھی زندگی کے کسی موڑ پر انسان کسی بیماری یا تکلیف میں مبتلا ہو جائے تو وہ اسکی کوئی دوسری وجہ نہیں سوچے گا بلکہ اسکے دماغ میں سب سے پہلی بات جو آئیگی اس تکلیف کے ہونے سے پہلے اسنے کیا کھایا تھا ؟ اسکے علاوہ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ سگریٹ نوشی اور پان خوری غذا کے ہضم ہونے میں مدد دیتی ہیں جسکی وجہ سے بعض لوگ جنہیں بد ہضمی کی شکایت ہو وہ اپنی غذا پر نظر ثانی کے بجائے پان خوری اور سگریٹ نوشی کی عادت کو اپنا کر اپنی صحت تباہ کر ڈالتے ہیں، خاص طور پر خیبر پختونخواہ کی عوام گوشت خوری میں اپنا ثانی نہیں رکھتے لیکن دانتوں کی بساند کو دور کرنے کے لئے نسوار خوری اپنا لیتے ہیں جسکی وجہ سے تمباکو خوری کے بد اثرات انکی صحت کی حفاظت کرنے کی بجائے نسوار کے کثرت استعمال سے معدہ کو نقصان پہنچا دیتے ہیں۔
انسان کی خرابی ہضم کی ایک بڑی وجہ چند غلط فہمیاں ہیں جن میں مبتلا ہو کر صحت کے فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہوتا ہے۔ ان میں سے چند غلط فہمیاں مندرجہ ذیل ہیں
مرغن غذائیں اچھی صحت کی ضا من ہیں ۔
موٹاپے کے لئے دودھ کا استعمال بہت ضروری ہے۔
مچھلی کھانے سے گرمی پیدا ہوتی ہے ۔
مرغی کے ساتھ مولی کااستعمال نقصان دہ ہے۔
گھی اور شہد ایک ساتھ استعمال کرنے سے فالج کا خطرہ ہوتاہے۔
مٹر ، آلو، سویابین اور چاول کے استعمال سے قبض ہوتی ہے۔
دہی اور اچار کے ایک ساتھ استعمال سے برص کا خطرہ ہوتا ہے۔
نفخ شکم یعنی معدہ یا پیٹ میں ریاح کا ہونا یہ صرف ایک علامت ہے اس ایک علامت کے ذریعے سے مختلف ادویات کا پتا لگانے کی کوشش کی گئی ہے ہمیشہ ریاح کے لئےتین مرکزی ادویات توجہ کی متقاضی ہیں ۔
کاربوویج ، چائینا اور لائکوپوڈیئم ، انکی علامات کا فرق بہت آسان ہے مثلاً کاربوویج کے نفخ کا زور معدہ کے مقام پر ہوتا ہے یعنی ناف سے اوپر اسکا دائرہ عمل ہے جو ڈکاروں کی صورت میں نمایاںہوتاہے۔لائیکوپوڈیئم ناف کےنیچےکےنفخ کی پہلی دواہے”یعنی بادشکم کےجھونکے”اس کی بنیاد ی علامت ہے اور تمام پیٹ کے نفخ کی دوا ہے ۔ نفخ شکم یعنی معدہ یا پیٹ میں ریاح کے علاج کے لئے مندرجہ ذیل اد ویات افادیت کی حامل ہیں
کاربوویج ۳۰: ناف سے اوپر ریاح کا زور۔ ڈکار وں سےوقتی طور پر آرام۔ ر یح جو مقعد سے خارج ہوتی ہے نہایت بدبودار ہوتی ہے۔ مر یض کسی سوسائٹی میں بیٹھنےکے لائق نہیں ہوتا ۔ دودھ اور گھی والی اشیاءتو قطعاًہضم نہیں ہو تیں۔غذا ہضم ہونے سے پہلے سڑکر بدبودار ہو جاتی ہے۔ عمر رسیدہ افراد کی دوا ہےجن کی عمر بس کھانے یاشراب و کباب میں گزری ہو۔
چائنا ۳۰: رطوبات جسمانیہ( کثرت احتلام۔ خون ضائع ہونا وغیرہ) کے تلف ہونے سےپیدا شدہ کمزوری جس کا نمایاںاثر پیٹ پر پڑتاہے اور پیٹ ریا ح سے بھرا رہتا ہے۔ ڈکاروں یاریح خارج کرنے سے قطعا ًآرام نہیں آتا ،جو چائن کی خاص علامات میں سے ہے اور نہ کاربوویج کی مانند اس کی ریح بدبودار ہوتی ہے بلکہ بے بو ہوتی ہے۔ اکثر اوقات غیرہضم شدہ پاخانے اسہال کی شکل میں آتے ہیں اور کانوں میں شائیں شائیں ہو تی ہے،جوکہ کمزوری کی علامت ہے ۔
لائیکو پوڈ یئم ۳۰ : ناف سے نیچےریا ح پیٹ کو پھلائے رکھتی ہے۔ پیٹ میں ہر وقت خمیرسا اٹھتا رہتا ہے۔ زور دار بھوک لگتی ہے مگر دو چار لقمے منہ میں ڈالتےہی طبیعت سیرہو جاتی ہے۔ ذائقہ کھٹا قبض اور پیشا ب میں سر خ ریت کا خارج ہونا،دائیں جانب کی تکالیف اوراسکےعلاوہ عار ضہ میں شدت شام چار سے آٹھ بجےتک توجہ طلب ہے۔
آرجنٹم نا ئیٹر یکم ۳۰: اس دوا کا مر یض میٹھی چیزوں کے لئے شائق ہوتا ہے اور خوب مٹھائیاںوغیر ہ کھاتا ہے لیکن ا سے ہمیشہ نفخ اور معدہ کی خرابی کی شکایت پیداہوتی رہتی ہے۔ ڈکار پھنس جاتا ہے اور کوشش کے بعد ہوا منہ کے ذر یعہ سے اور بلند آواز سے خارج ہوتی ہے گویامر یض ڈکارتارہتاہے۔
ریفی نس ۳۰: (مولی) جیسےکہ مولی کا خاصہ ہے، پیٹ میں بہت نفخ پیداہو جاتا ہے اور خاص علامت یہ ہے کہ ہوا نہ تو اوپر خارج ہوتی ہے اور نہ نیچے ،انسان کا پیٹ ڈھول سا بنا ہوتا ہے اور درد محسوس ہو نے لگتاہے۔
اگنیشیا ۳۰: ہرکھانےکے بعد معدہ کا ر یاح سے پھول جانااور دردہونا۔ رنج و غم کے بداثرات کا نتیجہ۔ ٹھنڈی اور لمبی سانسیں لے۔
ا یسا فوئٹیڈ ا ۳۰: ( ہینگ) اس دوا میں ریا ح ارجنٹم نایٹریکم کی ما نند اوپر کو اٹھتی ہیں اور اکثر غذا کے کھانے کے بعد معدہ میں ریاح اٹھ کر گلے میں پھنس جاتی ہے یعنی باؤ گولہ کی شکل پیدا ہو جاتی ہے۔
نکس مو شکا ٹا ۳۰: ( جائفل) ذرا سی غذا کے بعد بھی پیٹ پھول کر ُ کپاہو جاتا ہے۔ مریض ہر وقت غنودگی میں ہوتا ہے اور سوتےرہنا پسند کرتا ہے۔اسکی بنیادی علامت منہ خشک اورپیاس کا نہ ہونا پایا جاتا ہے۔
ما سکس ۳۰ : ( مشک) بہت زیادہ ریا ح جن کی وجہ سے اکثر مریض بے ہوش ہو جاتا ہے۔ اس دوا میں تین علامات قابل غور ہیں ۔ ۱۔ ہیسٹریا۲۔ ریا ح۳- مدہو ش ہونا ۔
پلساٹیلا۳۰: مرغن اشیاءکھانے کے بعد ریاح، پانی کی کم پیاس ،جلد رونے کا رجحان اور فربہی کی جانب مائل۔
نکس وامیکا ۳۰: یونانی اور ایلوپیتھک ادو یہ کا کثرت سے استعمال ، تیز مصالحہ دارغذا ئیں اور شراب و کباب کے انجام کے طور پر ریا ح اور بد ہضمی ۔راتوں کو دیر تک جاگنا۔
کالی کا رب ۳۰-۲۰۰: پیٹ میںریا ح اور اس طرح کا قولنجی درد جیسےکہ کالو سنتھ میں پایاجاتا ہے،یعنی پیٹ کو ہاتھ یاکسی چیزسے دبانے سے آرام۔ قولنجی حالت میں کالو سنتھ وغیرہ دیں اور درد کے بعد کالی کارب۔ جومزاجی دوا ہے اور بار بار واقع ہونے والے قولنجی دورے کو (جہاں کالوسنتھ وغیر ہ سطحی دوائیں و قتی آرام د یتی ہیں) یہ مستقل طور پر دور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
کالو سنتھ ۳۰: آگے جھکنے اور پیٹ کو دبانے سے افاقہ، شدید درد ، اسہال اورغصے کے بد اثرات۔
ڈا ئیسکووریا ۳۰: پیچھے جھکنے سے افاقہ صفراوق قولنج ۔
مگنیشیافا س 6ایکس : پیٹ درد کی وجہ سے مریض دوہرا ہوتا ہے پیٹ ملنے ڈکار لینے اور گرم ٹکور سے آرام رہتا ہے تیز گرم پانی میں ملا کر دینے سے جلد افاقہ ہوتا ہے۔
کیمومیلا ۳۰: بچوں کے شدید پیٹ کے درد میں بیلاڈونا ۳۰کے ساتھ ادل بدل کر استعمال کریں۔
سائنا ۳۰: بچوں کے پیٹ میں کیڑوں کی وجہ سے درد ، سوتے ہوئےمنہ سے رال ٹپکنا، سوتے ہوئے چونک جانا ، پیٹ کے بل سونا ، سوتے وقت دانتوں کو پیسنا۔
پلمبم ۳۰: شدید قبض،ناف جیسےاندر کی طرف کھچ رہی ہو، پاخانے مینگنیوں کی شکل میں ہوں۔
میرے معمولات مطب میں نظام ہاضمہ اور ریاحی تکالیف کے تناظرمیں مریضوں کے لئے مندرجہ ذیل چٹنی تجویز کی جاتی ہے
ادرک ، لہسن اور پودینہ ہم وزن لے کر باریک پیس لیا جائے اور کھانا تناول کرنے کے درمیان تین لقمے سالن کے اور ایک لقمہ مذکورہ چٹنی کا تناول کیا جائے اس سے جگرمعدہ اور گردوں کی حفا ظت بخوبی ہو سکتی ہے اور ذائقہ دار بھی۔
بد ہضمی کے لئے مزید مندرجہ ذیل ادویات تاثیر بخش ہیں جو اپنی علامات کے مطابق تجویزکی جا سکتی ہیں
آرسینکم البم، ایبس نائگرا، امونیم میؤر ، ایلومینا ، بسمتھ ، برائیونیا، پلساٹیلا، چیلی ڈونیم ، فاسفورس اور کاکولس ، وغیرہ ۔
وارسان ہومیوپیتھک سے پریمیم معاونت کا انتخاب
ہومیوپیتھک علاج کے بارے میں مزید معلومات اور ان کی خریداری کے بارے میں مزید جاننے کے لیے
براہ کرم یہاں کلک کریں!